CURIOUS-MINDS متجسس ذہن

Friday, February 16, 2018

اللہ ڈراتا ہے اپنے عذاب اور سزاوں سے





نشر مکرر۔۔۔۔۔۔۔
ملحدین کا اعتراض ہے کہ "اللہ ڈراتا ہے اپنے عذاب اور سزاوں سے"
میں پہلے بھی کئی دفعہ عرض کر چکا ہوں کہ ملحدین چاہے جتنا مرضی اپنی عقل کے استعمال کا ڈھنڈورا پیٹتے رہیں لیکن درحقیقت جہاں عقل بند ہوتی ہے وہاں سے الحاد کی ابتدا ہوتی ہے۔
عقل بند نہ ہوتی تو ڈر اور تنبیہہ کا فرق بھی یہ لازما جان چکے ہوتے، اللہ نے اپنی کتاب میں بہت سے مقامات پر نیکی اور گناہ، حق اور باطل، جزا اور سزا وغیرہ وغیرہ کو اتنی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ غور کرنے والے کے لئے سمجھنا ہر گز مشکل نہیں ہے۔
اللہ نے واضع بتا دیا ہے کہ فلاں فلاں کام پر تمہاری پکڑ ہو گی اور فلاں فلاں کا اجر یعنی انعام ملے گا لیکن ان دین بیزاروں اور اسلام دشمنوں کو کبھی یہ بولنے کی توفیق نہیں ہو گی کہ اللہ تو اپنے بندوں سے انعامات دینے کے وعدے بھی کرتا ہے۔
فقط یہ عقل بند ملحدین ہی نہیں بلکہ تقریبا سبھی والدین اپنی اولاد کی بھلائی کے لئے اسے ڈراتے بھی ہیں، تنبیہہ بھی کرتے ہیں ، انعام کا لالچ بھی دیتے ہیں ، حتی کہ اسے سزا بھی دیتے ہیں اور مقصود کیا ہوتا ہے؟ صرف اور صرف اپنی اولاد کی بھلائی اور کامیابی۔
تو میرا رب کیوں نہیں چاہے گا اپنے بندوں کی فلاح اور کامیابی؟ میرا رب تو وہ ممتحن ہے جس نے خود ہی نہ صرف امتحانی پرچہ آوٹ کیا ہوا ہے بلکہ امتحان میں کامیاب ہونے کے تمام کلیے بھی بتا دیئے ہیں۔
جس کے ہاتھ میں ہماری جان ہے، جو زمین و آسمان کا خالق و مالک ہے، جو دنیاوی و اخروی زندگی میں ہماری فلاح چاہتا ہے تو اس سے ڈرنا لازم نہیں بلکہ فرض ہے کہ مالک سے ڈرا ہی جاتا ہے۔
یہ ڈر درحقیقت انسان کی نجات ہے سزا سے عذاب سے کہ انسانی فطرت میں شامل ہے انسان کا بہکنا بھی، پھسلنا بھی اور ناشکرا ہونا بھی۔
ڈر بچاتا ہے انسان کو نقصانات سے کہ ناکامی کا خوف ہی انسان پر کامیابی کے در وا کرتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
آل عمران -102
مومنو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا


تخلیق کائنات کے دوران اللہ کہاں تھا





نشر مکرر۔۔۔۔۔۔
ملحدین وہ جھوٹی اور منافق قوم ہے کہ جب ان سے پوچھا جائے کہ تم ملحد کیوں ہوئے تو فرماتے ہیں کہ ہم نے اک طویل عرصہ تحقیق کی لیکن اسلام (قرآن و حدیث) ہمیں ہمارے سوالات کے جواب نہ دے پایا پس ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ نہ ہی اللہ کا وجود ہے اور نہ ہی کوئی الہامی مذہب۔
اسلام اور سائنس تو دور کی بات ان کی اک کثیر تعداد کو الحادی نظریات کی بھی مکمل آگاہی نہیں ہے، بس نفس کے غلام ہو کر اور اسلام کے خلاف بغض نکالنے کے لئے ملحد بنے بیٹھے ہیں۔
آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ خودساختہ محقق ملحدہ کے سوال کا کس قدر شافی جواب قرآن و حدیث سے ملتا ہے۔
اللہ فرماتا ہے:
الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ
رحمان جو عرش پر جلوہ گر ہے۔
طہ - 5
اور تخلیق کائنات اور اللہ کے عرش پر قائم ہونے کے متعلق قرآن میں ایک نہیں بلکہ متعدد آیات میں ذکر ملتا ہے۔
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ يُغْشِى ٱلَّيْلَ ٱلنَّهَارَ يَطْلُبُهُۥ حَثِيثًۭا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ وَٱلنُّجُومَ مُسَخَّرَٰتٍۭ بِأَمْرِهِۦٓ ۗ أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ
بے شک تمہارا رب الله ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھرعرش پر قرار پکڑا رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے وہ اس کے پیچھے دوڑتا ہوا آتا ہے اور سورج اورچاند اور ستارے اپنے حکم کے تابعدار بنا کر پیدا کیے اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا الله بڑی برکت والا ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔
اعراف - 54
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ إِذْنِهِۦ ۚ ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
بے شک تمہارا رب الله ہی ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر قائم ہوا وہی ہر کام کا انتظام کرتا ہے اس کی اجازت کے سوا کوئی سفارش کرنے والا نہیں ہے یہی الله تمہارا پروردگار ہے سو اسی کی عبادت کرو کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے۔
یونس - 3
ٱللَّهُ ٱلَّذِى رَفَعَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍۢ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ ۖ كُلٌّۭ يَجْرِى لِأَجَلٍۢ مُّسَمًّۭى ۚ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ يُفَصِّلُ ٱلْءَايَٰتِ لَعَلَّكُم بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ
الله وہ ہے جس نے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر بلند کیا جنہیں تم دیکھ رہے ہو پھر عرش پر قائم ہوا اور سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا ہر ایک اپنے وقت معین پر چل رہا ہے وہ ہر ایک کام کاانتظام کرتا ہے نشانیاں کھول کر بتاتا ہے تاکہ تم اپنے رب سے ملنے کا یقین کر لو۔
رعد - 2
ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ ٱلرَّحْمَٰنُ فَسْـَٔلْ بِهِۦ خَبِيرًۭا
جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے چھ دن میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا وہ رحمنٰ ہے پس اس کی شان کسی خبردار سے پوچھو۔
فرقان - 59
ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِۦ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ
الله وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اورجو کچھ ان میں ہے چھ روز میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا تمہارے لیے اس کے سوا نہ کوئی کارساز ہے نہ سفارشی پھر کیا تم نہیں سمجھتے۔
سجدۃ - 4
هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌۭ
وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ جو چیز زمین میں داخل ہوتی اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اُترتی اور جو اس کی طرف چڑھتی ہے سب اس کو معلوم ہے۔ اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔
حدید - 4
اب تحقیق کی بجائے کج بحثی و کج حجتی کی گندی عادت میں مبتلا ملحدین یہاں ضرور سوال کریں گئے کہ ان آیات سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ کائنات کو تخلیق کرنے کے بعد عرش پر براجمان ہوا لیکن ان کا سوال وہیں قائم ہے کہ تخلیق کائنات کے دوران اللہ کہاں تھا۔
تو عرض یہ ہے کہ اسلام کا منبع فقط قرآن نہیں بلکہ قرآن و حدیث دونوں ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی فرض ہے۔
صحیح بخاری میں عمران بن حصین کی روایت موجود ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کائنات کی تخلیق سے پہلے بھی اللہ کا عرش موجود تھا۔
عن عمران بن حصين قال : إني كنت عند رسول الله صلى الله عليه و سلم إذ جاء قوم من بني تميم فقال : " اقبلوا البشرى يا بني تميم " قالوا : بشرتنا فأعطنا فدخل ناس من أهل اليمن فقال : " اقبلوا البشرى يا أهل اليمن إذ لم يقبلها بنو تميم " . قالوا : قبلنا جئناك لنتفقه في الدين ولنسألك عن أول هذا الأمر ما كان ؟ قال : " كان الله ولم يكن شيء قبله وكان عرشه على الماء ثم خلق السماوات والأرض وكتب في الذكر كل شيء " ثم أتاني رجل فقال : يا عمران أدرك ناقتك فقد ذهبت فانطلقت أطلبها وأيم الله لوددت أنها قد ذهبت ولم أقم
حضرت عمران بن حصین کہتے ہیں کہ ایک دن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ( مشہور اور عظیم قبیلہ ) بنوتمیم کے کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ بنو تمیم کے لوگوں بشارت حاصل کرو ، انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دین کی تعلیمات کی صورت میں) بشارت تو ہمیں عطا فرمادی ، اب کچھ اور بھی عنایت فرما دیجئے ۔ پھر کچھ دیر بعد یمن کے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ (یمن کے لوگوں تم بشارت حاصل کرلو، بنوتمیم کے لوگوں نے تو بشارت حاصل نہیں کی ، یمن والوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے بشارت حاصل کی، اور ہم اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذہبی معلومات اور دینی شعور وفہم حاصل کریں، چنانچہ ہم آپ سے ابتدائے آفرینش اور مبداء عالم کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس (کائنات کے وجود میں آنے اور مخلوقات کی پیدائش ) سے پہلے کیا چیز موجود تھی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔صرف اللہ کی ذات موجود تھی (ازل الازال میں ) اس کے ساتھ اور اس کے پہلے کسی چیز کا وجود نہیں تھا ، اور اس کا عرش پانی پر تھا پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا اور لوح محفوظ میں ہر چیز کو لکھا ۔ (حدیث کے راوی حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی یہیں تک سن پایا تھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ عمران جاؤ اپنی اونٹنی کو تلاش کرو وہ بھاگ گئی ہے (یہ سنتے ہی میں اپنی اونٹنی کو تلاش کرنے کے لئے نکل کھڑا ہوا ، اور اب میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کاش میں اس وقت مجلس نبوی سے اٹھ کر نہ جاتا بھلے ہی میری اونٹنی جاتی رہتی۔
بے شک ایمان تو عقل والے ہی لاتے ہیں۔۔۔۔


Thursday, February 15, 2018

چیز کو حواسِ خمسہ سے نہ پہچانا جا سکے اس کا وجود نہیں ہوتا








ایک ملحد کی عقل    (ہنسنا منع ہے)
تحریر : محمّد سلیم
میں ہمیشہ سے یہ کہتا آیا ہوں کہ الحاد کا بوٹا جہالت کے بیج میں سے ہی نکلتا ہے ۔ ہر وہ ماں باپ جو بچوں کے اچھے مستقبل کی تمنا میں انہیں دینی علوم سے محروم رکھتے ہیں اپنے آپ کو اس بات کے لئے ذہنی طور پر تیار رکھیں کہ ان کا بچہ الحاد کا اعلان کب کرتا ہے ۔
عموماً ملحد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ الحاد میں آنے سے پہلے صوم و صلاہ کے پابند اور عالم ہوا کرتے تھے ۔ مگر جب ان سے دین کے بارے میں یا سائنس کے بارے میں بھی کچھ پوچھ لیا جائے تو حقیقت کھل کے سامنے آجاتی ہے ۔
ایسے ہی ایک ملحد ہمارے گروپ میں گھوم رہے ہیں بلائنڈ مین ۔ حواس خمسہ کس چڑیا کا نام ہے موصوف کو پتہ ہی نہیں اور لمبی چوڑی علمی پوسٹ ڈال کر بیٹھ گئے ۔ کہتے ہیں جو چیز حواس خمسہ کے احاطے میں نہ آئے اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا ۔ سبحان ﷲ ۔ میں نے پوچھ لیا کہ قبلہ میتھین گیس کی تو بو ہی نہیں ہوتی ۔ اس کو حواس خمسہ سے کیسے محسوس کریں گے ۔ تو بجائے جواب دینے کے الٹا مجھ سے پوچھ رہے کہ پھر سائنس دانوں نے اس کا پتہ کیسے لگا لیا ؟ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا ؟ یہ عقل کا عالم ہے ۔ بنیادی بات جو ان کی گفتگو سے سامنے آئی وہ یہ کہ موصوف حواسِ خمسہ کی سادہ تعریف نہیں جانتے اور عقل کو بھی حواسِ خمسہ میں شامل سمجھتے ہیں ۔
ان کی سہولت کے لئے بتا دوں کہ حواسِ خمسہ کا مطلب ہے پانچ حسیں ۔
١ ۔ سونگھنا
٢ ۔ چکھنا
٣ ۔ سننا
٤ ۔ چھوکر محسوس کرنا
٥ ۔ دیکھنا
یہ پانچ حواسِ خمسہ ہیں ۔ (ملحدوں جیسی ذہین ترین مخلوق کے لئے میں نے تصویر بھی دے دی ہے ۔)
میتھین گیس میں بو نہیں ہوتی لہٰذا اسے سونگھا نہیں جا سکتا ۔ ذائقہ نہیں ہوتا تو چکھا بھی نہیں جا سکتا ۔ آواز نہیں ہوتی تو سنا نہیں جا سکتا ۔ گیس ہے لہٰذا چھونا اور دیکھنا بھی ممکن نہیں ۔ مگر وہ اپنا وجود رکھتی ہے ۔ اسے اس کی آگ لگانے کی خصوصیت سے پہچانا جاتا ہے ۔
موصوف کہتے ہیں کہ جس چیز کو حواسِ خمسہ سے نہ پہچانا جا سکے اس کا وجود نہیں ہوتا ۔ لہٰذا ﷲ کا وجود نہیں ۔ یہ ہے ملحد کی عقل اور یہ ہیں الحاد کی تعلیمات ۔
نیوٹن نے کشش ثقل دریافت کی ۔ اس کا بھی تعلق حواسِ خمسہ سے نہیں ۔ موصوف کو حیرانگی اس بات پہ بھی ہے کہ اگر میتھین گیس حواسِ خمسہ کے احاطے سے باہر ہے تو سائنس دانوں کو اس کا پتہ کیسے چلا ؟ نیوٹن کو کیسے پتہ چلا ہو گا کہ گریویٹی ہے ۔ وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا ۔ ایک سیب گرا اور اسے ایک سوچ فراہم کر گیا کہ ہر چیز نیچے گرتی ہے تو کوئی کشش ہے جو اسے کھینچتی ہے ۔
موصوف بلائنڈ مین اپنی پوسٹ میں فرماتے ہیں :
("مسلمان کہتے ہیں کہ اللہ اپنی صفات سے پہچانا جاتا ہے" آئیے اس پر تھوڑا سا غوروفکر کرتے ہیں....
اکثر مسلمان بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ ایک ذات ہے وہ شعور رکھتا ہے عقل رکھتا ہے تو اس لحاظ سے اس نے قرآن میں اپنی صفات بھی بتائی ہیں اور ہر انسان یہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ صفات کا تعلق جذبات سے جڑا ہوا ہوتا ہے.تو اللہ کی صفات یعنی اسماء الحسنى کا تعلق جذبات سے ہوا.)
جواب ۔
بدقسمتی سے میرا شمار ان انسانوں میں ہوتا ہے جنہیں آپ کی پوسٹ سے یہ بات پہلی بار پتہ چلی کہ صفات کا تعلق جذبات سے جڑا ہوتا ہے ۔
میتھین گیس کی صفت ہے جلنا ۔ اس کا جذبات سے کیا تعلق ہے ۔ اسے جلانے کے لئے پپی کرنی پڑتی ہے ؟ یا وہ کسی دوسری گیس کی خصوصیات سے جلتی ہے یہ ؟ حسد کرتی ہے ؟ کیا تعلق ہے اس کا جذبات سے ؟
کششِ ثقل کی صفت ہے کھینچنا ۔ اس کا کیا تعلق ہے جذبات سے ؟ یقین کریں یہاں مراد ٹانگیں کھینچنا ہر گز نہیں ہے ۔
یہ کس عقلمند سائنس دان یا فلسفی کا فتوی ٰ ہے ؟ امید ہے وضاحت کے ساتھ سمجھائیں گے ۔
آگے کہتے ہیں :
(بقول مسلمانوں کے اللہ نے انسان کو حواس خمسہ جیسی نعمت سے نوازا ہے اسی کی بدولت ہم اپنے اردگرد کے ماحول کو سمجھتے ہیں پرکھتے ہیں اور پھر کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں.اور اخلاقیات مرتب کرتے ہیں....اسی حواس خمسہ ہی کی بدولت آج انسان ہر ہر شعبے میں ترقی کر رہا ہے....)
جواب ۔
انسان اپنے حواسِ خمسہ کی بدولت ترقی کر رہا ہے ؟ وہ کیسے ؟ یہ تمام حواسِ خمسہ تو جانوروں کے پاس بھی ہوتے ہیں ۔ بلکہ سائنس کے مطابق بعض جانوروں کے حواسِ خمسہ ہم سے زیادہ بہتر ہیں ۔ شاہین دورانِ پرواز کئی سو میٹر کی بلندی سے زمین پہ رینگنے والے جانداروں تک کو دیکھ لیتا ہے ۔ کتّے کی قوتِ شامہ انسان سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے ۔ ہاتھی کئی سو کلو میٹر دور سے آنے والی وہ آواز بھی سن سکتا ہے جو ہمیں سنائی نہیں دیتی ۔
موصوف کو پتہ نہیں کون سے سائنس دان نے یہ تعلیم دے دی کہ عقل حواسِ خمسہ میں آتی ہے ۔ لہٰذا پوری پوسٹ میں ان کا سارا زور حواسِ خمسہ پر ہے ۔ شاہجہان نے تاج محل بنانے والے مزدوروں کے ہاتھ کٹوا دیے تھے تاکہ ایسا شاہکار دوبارہ تخلیق نہ ہو ۔ میرا دل چاہ رہا ہے میں اس سائنس دان کی گردن کٹوا دوں جنہوں نے آپ کو سائنس پڑھائی ہے ۔
آگے فرماتے ہیں :
(بقول مسلمانوں کے اللہ نے انسان کو یہ حواس خمسہ جیسی نعمت اس لئے دی ہے تاکہ ہم اس کے ذریعے سے کائنات کی ہر ہر چیز کو سمجھے....اب انسانی دماغ یہ سوچتا ہے کہ کیا اللہ کو نہیں پتا تھا کہ میں انسان کو جو حواس خمسہ جیسی نعمت سے نواز رہا ہوں تو یہ میرے بارے میں بھی سوچے گا انہی حواس خمسہ سے مجھے بھی پرکھے گا. میرا تجزیہ کرے گا مجھے جاننے کی کوشش ضرور کرے گا.......لیکن انسان اپنے حواس خمسہ کے ذرائع سے اسکو سمجھ نہیں سکتا.....کیوں؟)
جواب ۔
ﷲ کو کیوں پتہ ہو گی یہ بات کہ آپ حواسِ خمسہ سے سوچنا شروع کر دیں گے جبکہ ان کا یہ فنکشن ہی نہیں ؟ آپ سوچ کیسے سکتے ہیں ناک سے یا کان سے یا منہ سے یا آنکھوں سے ؟
پوسٹ کے اس حصے میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ موصوف عقل کو حواسِ خمسہ میں شامل سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ عربی میں خمسہ کا مطلب پانچ ہے ۔ اگر عقل کو شامل کریں گے تو پھر حواسِ خمسہ کی جگہ حواسِ ستہ کہنا پڑے گا ۔
انسان حواسِ خمسہ سے ﷲ کو کیوں نہیں سمجھ پاتا اس کا جواب میں اوپر میتھین گیس کی مثال میں دے چکا ہوں ۔
آگے فرماتے ہیں ۔
(اگر انسان اپنے حواس خمسہ سے اللہ کو نہیں سمجھ سکتا تو اللہ کو کم از کم یہ تو کرنا چائیے تھا نا کہ انسان کے دماغ میں اللہ کا خیال ہی نا آتا.
یہ تو وہی بات ہوئی عورت آٹا بھی گوندے اور ہلے بھی نا. یعنی اللہ نے حواس خمسہ جیسی صلاحیت بھی دی اور اسکو سمجھ بھی نا سکے.)
جواب ۔
اگر انسان اپنے حواسِ خمسہ سے کششِ ثقل کو نہ محسوس کر سکے تو نیوٹن کے دماغ میں ایسا خیال ہی کیوں آیا ؟
عورت آٹا گوندھے اور ہلے بھی نہ ؟ یہ وہ آخری مثال تھی جو میرے سننے سے رہ گئی تھی سو آج یہ حسرت بھی پوری ہوئی ۔ شکریہ بھائی ۔
پھر کہتے ہیں ۔ (لمبی کہانی ہے مختصر کر رہا ہوں )
(انسانی ردعمل کی بنیاد جذبات پر ہوتی ہے.
کیا اللہ کے ردعمل کی بنیاد بھی جذبات پر ہوتی ہے؟
اگر اللہ کے ردعمل کی بنیاد جذبات پر نہیں ہوتی تو کس پر ہوتی ہے؟)
جواب ۔
انسانی ردِ عمل کی بنیاد جذبات پر ہوتی ہے ؟ یہ فلسفہ مجھے تو سمجھ نہیں آیا ۔ آپ ہمیں مثال دے کر سمجھائیں ۔
جیسا کہ
ایک دن ایڈیسن کا اندھیرے میں گلاس پہ ہاتھ لگا اور وہ گر کر ٹوٹ گیا ۔ اس کی بیوی نے اس کی پٹائی لگا دی ۔ اس واقعے سے وہ اتنا جذباتی ہوا کہ ردِ عمل میں بلب ایجاد کر ڈالا ۔ وہ دن اور آج کا دن اب کسی کی بیوی اپنے شوہر کی اس وجہ سے پٹائی نہیں لگا سکتی ۔
نتیجہ : پس ثابت ہوا کہ انسانی ردِ عمل کی بنیاد جذبات پر ہوتی ہے ۔
اس قسم کی کئی مثالیں دے کر اپنے ملحدانہ جذبات کی عکاسی کریں ۔
آگے چلتے ہیں :
(اگر اللہ کے ردعمل کی بنیاد جذبات پر ہوتی ہے تو ہم اللہ کے جذبات کو اسی کی دی ہوئی نعمت حواس خمسہ سے پرکھ اور سمجھ سکتے ہیں بلکل ایسے ہی جیسے ہم انسانوں کے جذبات کو سمجھ اور پرکھ سکتے ہیں.)
جواب ۔
میں نے پہلے بتایا کہ جذبات کا کوئی ذائقہ نہیں ہوتا ۔ نہ آواز نہ ان کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ اور اگر جذبات ملحدانہ نہ ہوں تو ان میں سے بدبو بھی نہیں آتی ۔ لہٰذا یہ سوال ہی احمقانہ ہے کہ ﷲ کو حواسِ خمسہ سے کیوں پرکھا نہیں جا سکتا ۔
آگے چلتے ہیں :
( لیکن انسان جب اللہ کی صفات کو اپنے حواس خمسہ سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو عملی طور پر وہ دیکھتا ہے کہ اللہ اپنی صفات پر پورا نہیں اترتا. مطلب وہ اللہ کی صفات کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے...... پھر وہ مایوس ہوتا ہے اور مایوسی گنا ہے. اب گنا سے بچنے کے لئے وہ اپنے آپ پر اللہ کی طرف سے آزمائش سمجھتا ہے پھر آزمائش کو بھی سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے. جب وہ یہ سوچتا ہے کہ اللہ نے مجھے ہی کیوں اس آزمائش میں ڈالا ہے تو اللہ کی مرضی سمجھ کر خاموش ہو جاتا ہے. اب وہ اللہ کی مرضی کو بھی نہیں سمجھ پاتا کیوں کہ اللہ کی مرضی انسانی عقل سے match نہیں کرتی اور نا ہی اللہ اسکو مطمئن کر پاتا ہے اور جب انسان مطمئن نہیں ہوتا تو پھر اس کے اندر بے چینی بڑھتی ہے.پھر اسکا تجسس شروع ہوتا ہے پھر وہ سوچتا ہے. یہاں سے آگے اسکی زندگی میں انقلاب آنا شروع ہوتا ہے..)
جواب ۔
اب اس میں کس کا قصور ہے ؟ اگر آپ ناک سے کھانا کھانے کی کوشش کریں اور ناکام ہو جائیں تو اس میں ﷲ تعالیٰ کا قصور ہے ؟ کھانے کو منہ میں ڈالیں ۔ زبان سے ذائقہ چکھیں ۔ دانتوں سے چبائیں یہ پورا فنکشن ہے ۔ غلط عضو کو غلط کام کے لئے غلط طریقے سے استعمال کریں گے تو نتیجہ غلط ہی نکلے گا ۔
بہتر یہ ہے کہ ﷲ کو اس کی صفات سے پہچانیں ۔ اس کی تخلیقات سے پہچانیں ۔
اور خدارا اپنے جسم پہ ادھر ادھر دھیان ماریں اور چیک کریں اور بھی اعضاء لگے ہوئے ہوں گے جسم پہ ۔ کہیں پہ ٹانگیں چپکی ہوئی ہوں گی کہیں بازو لگے ہوئے ہوں گے ۔ نرے حواسِ خمسہ ہی چپکا کر نہیں بھیج دیا ﷲ نے آپ کو ۔











کیا الله ( نعوزبالله) ایک مرد ہے؟




الحادی اعتراض۔ "الله کے لیے مذکر کا صيغہ کیوں استعمال ہوتا ہے؟ کیا الله ( نعوزبالله) ایک مرد ہے؟"
الجواب۔
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين ، نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين ، وبعد، تذکیر وتانیث زبان کے لوازمات ہیں، ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے مثلا سورج اردو زبان میں مذکر استعمال ہوتا ہے یعنی ہم کہتے ہیں:
سورج طلوع ہوتا ہے
اور
عربی زبان میں یہ مونث استعمال ہوتا ہے یعنی عرب کہتے ہیں
تطلع الشمس
اب سورج نہ تو مذکر ہے نہ ہی مونث، یعنی جس معنی میں ہم مذکر ومونث مراد لیتے ہیں۔
اسی طرح سائیکل، گاڑی، دہی، میز، کرسی وعلی ھذا القیاس ہزاروں اشیاء کے بارے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ مذکر یا مونث ہیں اگرچہ ان کے لیے صیغے مذکر یا مونث ہی کے استعمال ہوتے ہیں اور یہ زبان کے اسالیب ہیں۔
علم نحو کے امام ، امام سیبویہ نے کہا ہے کہ مذکر ومونث کے صیغوں میں سے اصل مذکر کا صیغہ ہے کیونکہ مونث کا صیغہ مذکر سے بنتا ہے لہذا مذکر کا صیغہ افضل واشرف ہے۔
پس اسی لیے اللہ سبحانہ وتعالی کے لیے اشرف صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔واللہ اعلم بالصواب
جہاں تک مذکر ومونث کا تعلق ہے تو یہ اجناس اللہ کی مخلوق ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
( وَأَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى ) (النجم:45) .
اور بلاشبہ اللہ تعالی نے جوڑے پیدا کیے ہیں یعنی مذکر اور مونث۔
پس اللہ کی مخلوق کو اللہ کی صفت بنانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
واللہ اعلم بالصواب


kya ilm ul kalam jurm hai ? aqaid aur aqal







گریویٹیشنل ویو کی دریافت پر ایتھسٹ طبقے کے طنز کا بے لوث جائزہ :
آج کل ایک لہر چل رہی ہے، بطور خاص فیس پر وہ یہ کہ
’’
جناب! گریوی ٹیشنل ویو کے ساتھ اپنے اپنے مذہبی عقائد کو جوڑنے اور پھر اس سے اپنے عقائد کی تصدیق کا ناجائز فائدہ اُٹھانے والے ’’بندگانِ خدا‘‘ دھوکے باز، موقع پرست اور غلط ہیں۔ جب بھی کوئی نئی سائنسی دریافت، ایجاد یا نظریہ سامنے آتاہے تو ایسے لوگ جھٹ سے اپنی اپنی بغلوں میں اپنے اپنے قران دبائے بھاگے چلے آتے ہیں اور کہتے ہیں، ’یہ دیکھو! یہ بات ہمارے قران میں پہلے سے لکھی ہوئی ہے‘‘۔
اس طرح کرنے والے لوگوں کو عصر حاضر کے اہل ِ فلسفہ اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے اور اُن کا مؤقف یہ ہے کہ اپنے عقائد کو ثابت کرنے کے لیے سائنسی نظریات و افکار کو بطور آلہ استعمال کرنا دیانتدارانہ عمل نہیں ہے اور اِس لیے ایسے خیالات کو کبھی بھی اکیڈمک حیثیت نہیں دی جاسکتی۔
میری دانست میں اس اعتراض میں تمام تر قوت صرف ایک الزام کی وجہ سے ہے اور وہ یہ ہے کہ،
’’مذہبی لوگوں کا یہ عمل دیانتدارنہ نہیں ہوسکتا اور اس وجہ سے اِسے اکیڈمک حیثیت نہیں مل سکتی‘‘۔
دیانتدارانہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ مذہبی عقیدہ ہمارے ذہن میں پہلے سے ہوتاہے اور یہی علم الکلام کی معروف تعریف بھی ہے۔ ہماری خواہش بھی پہلے سے ہوتی ہے کہ ہمارا ہی عقیدہ درست ثابت ہو چنانچہ جب کبھی کوئی ایسی سائنسی دریافت سامنے آتی ہے جو ہمارے عقیدے کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے دلیل کا کام کرسکے تو ہم جھٹ سے اس دریافت کواپنے عقیدے کے حق میں استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں جبکہ ایک سچا محقق کبھی جانبدار نہیں ہوتا۔ چونکہ اپنے پہلے سے قبول شدہ مذہبی عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے سائنسی دریافت کوبطور آلہ استعمال کیا جارہا ہےاس لیے محقق جانبدار ہے اور اس کا کام اکیڈمیا کے نزدیک بے کار ہے۔ یہ بڑی خوبصورت اور معقول بات ہے۔
لیکن عصر ِ حاضر کے طلبۂ فلسفہ و سائنس اور ایتھسٹ برادری کی طرف سے اس معقول ترین اعتراض کی فطرت پر چند منطقی سوال پیدا ہوتے ہیں جو میری دانست میں کسی طور نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔
پہلا سوال،
ایک سائنسدان خود مذہبی شخص ہوسکتاہے۔ بے شمار ہندو، مسلمان، عیسائی، یہودی سائنسدان اب بھی ہیں اور ہمیشہ سے تھے۔ اب تصور کریں کہ ایک سائنسدان کہتاہے ’’میں نے فلاں دریافت کا آئیڈیا اولڈ ٹیسٹمنٹ سے لیا تھا‘‘۔ اس کے ایسا کہنے کے بعد کون سا سائنسی یا منطقی طریقہ ہے جس سے اس کے دعوے کو جھٹلایا جاسکے؟ اس سوال کا جواب سوائے اس کے اور کوئی نہیں دیا جاسکتا کہ اس کی سائنسی دریافت چونکہ ایک سائنسی دریافت ہے چنانچہ لازمی طور پر اس سے پہلے بھی کچھ ایسی سائنس موجود ہوگی جس کے تسلسل میں وہ آگے بڑھ سکا۔ سابقہ سائنس کی موجودگی، اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پاس آئیڈیا فقط بائیبل سے نہیں آیا تھا بلکہ وہ ایک سائنسدان تھا اور اس کا سابقہ مطالعہ ہی موجب بنا کہ وہ ایک نیا آئیڈیا سوچ سکے۔ یہ جواب معقول ہے لیکن اس کے دعوے کو مکمل طور پر رد نہیں کرپاتا۔ بفرض ِ محال اسے اولڈ ٹیسٹمنٹ کی تلاوت کے دوران کسی آیت سے انسائیٹ ملی، ایک جھماکہ سا ہوا اور کوئی نئی بات سمجھ میں آئی۔ اگر وہ تلاوت نہ کررہا ہوتا، مذکورہ آیت اس کے سامنے نہ آئی ہوتی اور وہ بصیرت اسے کبھی نہ ملی ہوتی تو سابقہ سائنس اس کے کس کام کی تھی؟
دوسرا سوال،
اِس بات کا پتہ کیسے چلے گا کہ محقق کی نیّت فی الواقعہ اپنے ہی عقیدے کو درست ثابت کرنا ہے فلہذا اس کا عمل بائیسڈ یعنی کہ جانبدارانہ ہے؟ فرض کریں ایک محقق مذہب کے لحاظ سے ایک اور مذہب کا ہے اور اپنی ریسرچ میں کسی اور مذہب کے عقیدے کو ثابت کرتاہے تو ہم کس بنا پر کہیں گے کہ وہ بائیسڈ ، جانبدار یا بددیانت ہے؟ فرض کریں ایک محقق مسلمان ہے اور گریوی ٹیشنل ویو کی دریافت سے اس کی ریسرچ میں کچھ ایسے حقائق سامنے آرہے ہیں جو ہندوؤں کے آواگون یعنی ’’بار بار جنم‘‘ کے عقیدہ کی تصدیق کی دلیل کے طور پر استعمال ہوسکتے ہیں۔ فرض کریں وہ مسلمان محقق ایک آرٹکل لکھتاہے اور نئی سائنسی دریافت کی مدد سے آواگون کے حق میں بحث کرتاہے۔ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب بھی وہ جانبدار ہے؟
تیسرا سوال،
فرض کریں ایک شخص نے کہا کہ سپیس ٹائم فیبرک جو نظر نہیں آتی اور آسمان اُس پر قائم ہیں، ان کا ذکر قران میں اس طرح ہے، ’’الله وہ ہے جس نے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر بلند کیا جنہیں تم دیکھ رہے ہو‘‘۔ تو ایسا کہنے سے یہ کیسے ثابت ہوجاتاہےکہ سٹیٹمنٹ پیش کرنے والا علمی بددیانتی کا مرتکب ہورہا ہے۔ اس کے برعکس اس نے جس عمل کا مظاہر کیا اسے تحقیق کی زبان میں لٹریچر ریور کہا جاتاہے اور عام طور مذہب پسند محققین اپنے اپنے لٹریچر ریوز میں مذہبی میٹریل کو پیش کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ پہلے اکیڈمک مؤرخ بابائے تاریخ ہیروڈوٹس سے لے کر ہمارے عہد کے مشہور ایتھیسٹ سائنسدان کارل ساگان تک کتنے ہی سائنس دانوں نے اپنی کتابوں کے ابواب کے شروع میں متعدد ایسی کوٹس دی ہوئی ہیں جو مذہبی ہیں یا مذہبی کتابوں سے ہیں۔ ہمارے پاس مشہور کمیونسٹ سبط ِ حسن قدیم دیوی دیوتاؤں کے ناموں اور کہانیوں کو اپنے دور کے فلسفیانہ مناظر سے تطبیق کے لیے پیش کرتاہے۔ ’’موسیٰ سے مارکس تک‘‘ کے ٹائٹل پر پرومیتھوسس کی تصویر اور فلیپ پر لکھی کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ مذہب کا نہ ماننے والا سبطِ حسن بھی اپنے تحقیق میں لٹریچر ریور کے طور پر صحائف یا مائیتھالوجی کا ذکر درج کرنا غیر مناسب نہیں سمجھتا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی تحقیق کے شروع میں جس قدر بھی لٹریچر اس سے ماقبل ہے اس کا درج کیا جانا مستحسن ہے، اس بات سے بالکل بے نیاز ہوکر کہ وہ سٹیٹمنٹ کسی فیتھ یا مذہب سے آرہی ہے۔
چنانچہ یہ ٹرینڈ کہ ’’ہاں ہاں، گریوٹی ویو کے دریافت ہوتے ہیں مذہبی عقائد کی تائید اور تصدیق کا سلسلہ کیوں شروع کردیا گیا؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔ اکیڈمیا کی طرف سے نہیں آرہا۔ بلکہ یہ سوشل سائنسز پر ماڈرن ویسٹرن کیپٹالسٹ افکار کے غلبہ کے بعد ایک فیشن کا حصہ بن کر محققین کو شرمندہ کرنے کے لیے استعمال کیا جانے والا نہایت بھونڈا ہتھیار ہے۔ بھونڈا اس لیے اگر اس اعتراض کو درست مان لیا جائے تو ہمیں سقراط سے لے کر مارکس سے پہلے پہلے تک کی لگ بھگ تمام فلاسفی اور ڈیماکریٹس سے لے کر نیوٹن اورنیوٹن سے لے کر آئن سٹائن تک کی تقریباً تمام تر سائنس بھی اس اعتراض کی رُو سے رد کرنا ہوگی کیونکہ یہ لوگ مذہبی تھے اور اکثر اپنی دریافتوں پر اس لیے بھی خوش ہوا کرتے تھے کہ ان کی دریافتیں اُن کے مذہبی عقائد کی تائید کرتی ہیں۔
تحریر ادریس آزاد