ایک ملحد کی عقل (ہنسنا منع ہے)
تحریر
: محمّد سلیم
میں
ہمیشہ سے یہ کہتا آیا ہوں کہ الحاد کا بوٹا جہالت کے بیج میں سے ہی نکلتا ہے ۔ ہر
وہ ماں باپ جو بچوں کے اچھے مستقبل کی تمنا میں انہیں دینی علوم سے محروم رکھتے
ہیں اپنے آپ کو اس بات کے لئے ذہنی طور پر تیار رکھیں کہ ان کا بچہ الحاد کا اعلان
کب کرتا ہے ۔
عموماً ملحد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ الحاد میں آنے سے پہلے صوم و
صلاہ کے پابند اور عالم ہوا کرتے تھے ۔ مگر جب ان سے دین کے بارے میں یا سائنس کے
بارے میں بھی کچھ پوچھ لیا جائے تو حقیقت کھل کے سامنے آجاتی ہے ۔
ایسے ہی ایک ملحد ہمارے گروپ میں گھوم رہے ہیں بلائنڈ مین ۔ حواس
خمسہ کس چڑیا کا نام ہے موصوف کو پتہ ہی نہیں اور لمبی چوڑی علمی پوسٹ ڈال کر بیٹھ
گئے ۔ کہتے ہیں جو چیز حواس خمسہ کے احاطے میں نہ آئے اس کا کوئی وجود ہی نہیں
ہوتا ۔ سبحان ﷲ ۔ میں نے پوچھ لیا کہ قبلہ میتھین گیس کی تو بو ہی نہیں ہوتی ۔ اس
کو حواس خمسہ سے کیسے محسوس کریں گے ۔ تو بجائے جواب دینے کے الٹا مجھ سے پوچھ رہے
کہ پھر سائنس دانوں نے اس کا پتہ کیسے لگا لیا ؟ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے
خدا ؟ یہ عقل کا عالم ہے ۔ بنیادی بات جو ان کی گفتگو سے سامنے آئی وہ یہ کہ موصوف
حواسِ خمسہ کی سادہ تعریف نہیں جانتے اور عقل کو بھی حواسِ خمسہ میں شامل سمجھتے
ہیں ۔
ان کی سہولت کے لئے بتا دوں کہ حواسِ خمسہ کا مطلب ہے پانچ حسیں ۔
١ ۔ سونگھنا
٢ ۔ چکھنا
٣ ۔ سننا
٤ ۔ چھوکر محسوس کرنا
٥ ۔ دیکھنا
یہ پانچ حواسِ خمسہ ہیں ۔ (ملحدوں جیسی ذہین ترین مخلوق کے لئے میں
نے تصویر بھی دے دی ہے ۔)
میتھین گیس میں بو نہیں ہوتی لہٰذا اسے سونگھا نہیں جا سکتا ۔
ذائقہ نہیں ہوتا تو چکھا بھی نہیں جا سکتا ۔ آواز نہیں ہوتی تو سنا نہیں جا سکتا ۔
گیس ہے لہٰذا چھونا اور دیکھنا بھی ممکن نہیں ۔ مگر وہ اپنا وجود رکھتی ہے ۔ اسے
اس کی آگ لگانے کی خصوصیت سے پہچانا جاتا ہے ۔
موصوف کہتے ہیں کہ جس چیز کو حواسِ خمسہ سے نہ پہچانا جا سکے اس کا
وجود نہیں ہوتا ۔ لہٰذا ﷲ کا وجود نہیں ۔ یہ ہے ملحد کی عقل اور یہ ہیں الحاد کی
تعلیمات ۔
نیوٹن نے کشش ثقل دریافت کی ۔ اس کا بھی تعلق حواسِ خمسہ سے نہیں ۔
موصوف کو حیرانگی اس بات پہ بھی ہے کہ اگر میتھین گیس حواسِ خمسہ کے احاطے سے باہر
ہے تو سائنس دانوں کو اس کا پتہ کیسے چلا ؟ نیوٹن کو کیسے پتہ چلا ہو گا کہ
گریویٹی ہے ۔ وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا ۔ ایک سیب گرا اور اسے ایک سوچ فراہم
کر گیا کہ ہر چیز نیچے گرتی ہے تو کوئی کشش ہے جو اسے کھینچتی ہے ۔
موصوف بلائنڈ مین اپنی پوسٹ میں فرماتے ہیں :
("مسلمان کہتے ہیں کہ اللہ اپنی صفات سے پہچانا جاتا ہے" آئیے
اس پر تھوڑا سا غوروفکر کرتے ہیں....
اکثر مسلمان بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ ایک ذات ہے وہ شعور رکھتا ہے
عقل رکھتا ہے تو اس لحاظ سے اس نے قرآن میں اپنی صفات بھی بتائی ہیں اور ہر انسان
یہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ صفات کا تعلق جذبات سے جڑا ہوا ہوتا ہے.تو اللہ کی صفات
یعنی اسماء الحسنى کا تعلق جذبات سے ہوا.)
جواب
۔
بدقسمتی سے میرا شمار ان انسانوں میں ہوتا ہے جنہیں آپ کی پوسٹ سے
یہ بات پہلی بار پتہ چلی کہ صفات کا تعلق جذبات سے جڑا ہوتا ہے ۔
میتھین گیس کی صفت ہے جلنا ۔ اس کا جذبات سے کیا تعلق ہے ۔ اسے
جلانے کے لئے پپی کرنی پڑتی ہے ؟ یا وہ کسی دوسری گیس کی خصوصیات سے جلتی ہے یہ ؟
حسد کرتی ہے ؟ کیا تعلق ہے اس کا جذبات سے ؟
کششِ ثقل کی صفت ہے کھینچنا ۔ اس کا کیا تعلق ہے جذبات سے ؟ یقین
کریں یہاں مراد ٹانگیں کھینچنا ہر گز نہیں ہے ۔
یہ کس عقلمند سائنس دان یا فلسفی کا فتوی ٰ ہے ؟ امید ہے وضاحت کے
ساتھ سمجھائیں گے ۔
آگے
کہتے ہیں :
(بقول مسلمانوں کے اللہ نے انسان کو حواس خمسہ جیسی نعمت سے نوازا
ہے اسی کی بدولت ہم اپنے اردگرد کے ماحول کو سمجھتے ہیں پرکھتے ہیں اور پھر کسی
نتیجے پر پہنچتے ہیں.اور اخلاقیات مرتب کرتے ہیں....اسی حواس خمسہ ہی کی بدولت آج
انسان ہر ہر شعبے میں ترقی کر رہا ہے....)
جواب
۔
انسان اپنے حواسِ خمسہ کی بدولت ترقی کر رہا ہے ؟ وہ کیسے ؟ یہ
تمام حواسِ خمسہ تو جانوروں کے پاس بھی ہوتے ہیں ۔ بلکہ سائنس کے مطابق بعض
جانوروں کے حواسِ خمسہ ہم سے زیادہ بہتر ہیں ۔ شاہین دورانِ پرواز کئی سو میٹر کی
بلندی سے زمین پہ رینگنے والے جانداروں تک کو دیکھ لیتا ہے ۔ کتّے کی قوتِ شامہ
انسان سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے ۔ ہاتھی کئی سو کلو میٹر دور سے آنے والی وہ آواز
بھی سن سکتا ہے جو ہمیں سنائی نہیں دیتی ۔
موصوف کو پتہ نہیں کون سے سائنس دان نے یہ تعلیم دے دی کہ عقل
حواسِ خمسہ میں آتی ہے ۔ لہٰذا پوری پوسٹ میں ان کا سارا زور حواسِ خمسہ پر ہے ۔
شاہجہان نے تاج محل بنانے والے مزدوروں کے ہاتھ کٹوا دیے تھے تاکہ ایسا شاہکار
دوبارہ تخلیق نہ ہو ۔ میرا دل چاہ رہا ہے میں اس سائنس دان کی گردن کٹوا دوں جنہوں
نے آپ کو سائنس پڑھائی ہے ۔
آگے
فرماتے ہیں :
(بقول مسلمانوں کے اللہ نے انسان کو یہ حواس خمسہ جیسی نعمت اس لئے
دی ہے تاکہ ہم اس کے ذریعے سے کائنات کی ہر ہر چیز کو سمجھے....اب انسانی دماغ یہ
سوچتا ہے کہ کیا اللہ کو نہیں پتا تھا کہ میں انسان کو جو حواس خمسہ جیسی نعمت سے
نواز رہا ہوں تو یہ میرے بارے میں بھی سوچے گا انہی حواس خمسہ سے مجھے بھی پرکھے
گا. میرا تجزیہ کرے گا مجھے جاننے کی کوشش ضرور کرے گا.......لیکن انسان اپنے حواس
خمسہ کے ذرائع سے اسکو سمجھ نہیں سکتا.....کیوں؟)
جواب
۔
ﷲ کو کیوں پتہ ہو گی یہ بات کہ آپ حواسِ خمسہ سے سوچنا شروع کر دیں
گے جبکہ ان کا یہ فنکشن ہی نہیں ؟ آپ سوچ کیسے سکتے ہیں ناک سے یا کان سے یا منہ
سے یا آنکھوں سے ؟
پوسٹ کے اس حصے میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ موصوف عقل کو حواسِ
خمسہ میں شامل سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ عربی میں خمسہ کا مطلب پانچ ہے ۔ اگر عقل کو
شامل کریں گے تو پھر حواسِ خمسہ کی جگہ حواسِ ستہ کہنا پڑے گا ۔
انسان حواسِ خمسہ سے ﷲ کو کیوں نہیں سمجھ پاتا اس کا جواب میں اوپر
میتھین گیس کی مثال میں دے چکا ہوں ۔
آگے
فرماتے ہیں ۔
(اگر انسان اپنے حواس خمسہ سے اللہ کو نہیں سمجھ سکتا تو اللہ کو کم
از کم یہ تو کرنا چائیے تھا نا کہ انسان کے دماغ میں اللہ کا خیال ہی نا آتا.
یہ تو وہی بات ہوئی عورت آٹا بھی گوندے اور ہلے بھی نا. یعنی اللہ
نے حواس خمسہ جیسی صلاحیت بھی دی اور اسکو سمجھ بھی نا سکے.)
جواب
۔
اگر انسان اپنے حواسِ خمسہ سے کششِ ثقل کو نہ محسوس کر سکے تو
نیوٹن کے دماغ میں ایسا خیال ہی کیوں آیا ؟
عورت آٹا گوندھے اور ہلے بھی نہ ؟ یہ وہ آخری مثال تھی جو میرے
سننے سے رہ گئی تھی سو آج یہ حسرت بھی پوری ہوئی ۔ شکریہ بھائی ۔
پھر
کہتے ہیں ۔ (لمبی کہانی ہے مختصر کر رہا ہوں )
(انسانی ردعمل کی بنیاد جذبات پر ہوتی ہے.
کیا اللہ کے ردعمل کی بنیاد بھی جذبات پر ہوتی ہے؟
اگر اللہ کے ردعمل کی بنیاد جذبات پر نہیں ہوتی تو کس پر ہوتی ہے؟)
جواب
۔
انسانی ردِ عمل کی بنیاد جذبات پر ہوتی ہے ؟ یہ فلسفہ مجھے تو سمجھ
نہیں آیا ۔ آپ ہمیں مثال دے کر سمجھائیں ۔
جیسا کہ
ایک دن ایڈیسن کا اندھیرے میں گلاس پہ ہاتھ لگا اور وہ گر کر ٹوٹ
گیا ۔ اس کی بیوی نے اس کی پٹائی لگا دی ۔ اس واقعے سے وہ اتنا جذباتی ہوا کہ ردِ
عمل میں بلب ایجاد کر ڈالا ۔ وہ دن اور آج کا دن اب کسی کی بیوی اپنے شوہر کی اس
وجہ سے پٹائی نہیں لگا سکتی ۔
نتیجہ : پس ثابت ہوا کہ انسانی ردِ عمل کی بنیاد جذبات پر ہوتی ہے
۔
اس قسم کی کئی مثالیں دے کر اپنے ملحدانہ جذبات کی عکاسی کریں ۔
آگے
چلتے ہیں :
(اگر اللہ کے ردعمل کی بنیاد جذبات پر ہوتی ہے تو ہم اللہ کے جذبات
کو اسی کی دی ہوئی نعمت حواس خمسہ سے پرکھ اور سمجھ سکتے ہیں بلکل ایسے ہی جیسے ہم
انسانوں کے جذبات کو سمجھ اور پرکھ سکتے ہیں.)
جواب
۔
میں نے پہلے بتایا کہ جذبات کا کوئی ذائقہ نہیں ہوتا ۔ نہ آواز نہ
ان کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ اور اگر جذبات ملحدانہ نہ ہوں تو ان میں سے بدبو بھی
نہیں آتی ۔ لہٰذا یہ سوال ہی احمقانہ ہے کہ ﷲ کو حواسِ خمسہ سے کیوں پرکھا نہیں جا
سکتا ۔
آگے
چلتے ہیں :
( لیکن انسان جب اللہ کی صفات کو اپنے حواس خمسہ سے سمجھنے کی کوشش
کرتا ہے تو عملی طور پر وہ دیکھتا ہے کہ اللہ اپنی صفات پر پورا نہیں اترتا. مطلب
وہ اللہ کی صفات کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے...... پھر وہ مایوس ہوتا ہے اور مایوسی
گنا ہے. اب گنا سے بچنے کے لئے وہ اپنے آپ پر اللہ کی طرف سے آزمائش سمجھتا ہے پھر
آزمائش کو بھی سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے. جب وہ یہ سوچتا ہے کہ اللہ نے مجھے ہی کیوں
اس آزمائش میں ڈالا ہے تو اللہ کی مرضی سمجھ کر خاموش ہو جاتا ہے. اب وہ اللہ کی
مرضی کو بھی نہیں سمجھ پاتا کیوں کہ اللہ کی مرضی انسانی عقل سے match نہیں
کرتی اور نا ہی اللہ اسکو مطمئن کر پاتا ہے اور جب انسان مطمئن نہیں ہوتا تو پھر
اس کے اندر بے چینی بڑھتی ہے.پھر اسکا تجسس شروع ہوتا ہے پھر وہ سوچتا ہے. یہاں سے
آگے اسکی زندگی میں انقلاب آنا شروع ہوتا ہے..)
جواب
۔
اب اس میں کس کا قصور ہے ؟ اگر آپ ناک سے کھانا کھانے کی کوشش کریں
اور ناکام ہو جائیں تو اس میں ﷲ تعالیٰ کا قصور ہے ؟ کھانے کو منہ میں ڈالیں ۔
زبان سے ذائقہ چکھیں ۔ دانتوں سے چبائیں یہ پورا فنکشن ہے ۔ غلط عضو کو غلط کام کے
لئے غلط طریقے سے استعمال کریں گے تو نتیجہ غلط ہی نکلے گا ۔
بہتر یہ ہے کہ ﷲ کو اس کی صفات سے پہچانیں ۔ اس کی تخلیقات سے
پہچانیں ۔
اور خدارا اپنے جسم پہ ادھر ادھر دھیان ماریں اور چیک کریں اور بھی
اعضاء لگے ہوئے ہوں گے جسم پہ ۔ کہیں پہ ٹانگیں چپکی ہوئی ہوں گی کہیں بازو لگے
ہوئے ہوں گے ۔ نرے حواسِ خمسہ ہی چپکا کر نہیں بھیج دیا ﷲ نے آپ کو ۔