CURIOUS-MINDS متجسس ذہن

Thursday, February 15, 2018

kya ilm ul kalam jurm hai ? aqaid aur aqal







گریویٹیشنل ویو کی دریافت پر ایتھسٹ طبقے کے طنز کا بے لوث جائزہ :
آج کل ایک لہر چل رہی ہے، بطور خاص فیس پر وہ یہ کہ
’’
جناب! گریوی ٹیشنل ویو کے ساتھ اپنے اپنے مذہبی عقائد کو جوڑنے اور پھر اس سے اپنے عقائد کی تصدیق کا ناجائز فائدہ اُٹھانے والے ’’بندگانِ خدا‘‘ دھوکے باز، موقع پرست اور غلط ہیں۔ جب بھی کوئی نئی سائنسی دریافت، ایجاد یا نظریہ سامنے آتاہے تو ایسے لوگ جھٹ سے اپنی اپنی بغلوں میں اپنے اپنے قران دبائے بھاگے چلے آتے ہیں اور کہتے ہیں، ’یہ دیکھو! یہ بات ہمارے قران میں پہلے سے لکھی ہوئی ہے‘‘۔
اس طرح کرنے والے لوگوں کو عصر حاضر کے اہل ِ فلسفہ اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے اور اُن کا مؤقف یہ ہے کہ اپنے عقائد کو ثابت کرنے کے لیے سائنسی نظریات و افکار کو بطور آلہ استعمال کرنا دیانتدارانہ عمل نہیں ہے اور اِس لیے ایسے خیالات کو کبھی بھی اکیڈمک حیثیت نہیں دی جاسکتی۔
میری دانست میں اس اعتراض میں تمام تر قوت صرف ایک الزام کی وجہ سے ہے اور وہ یہ ہے کہ،
’’مذہبی لوگوں کا یہ عمل دیانتدارنہ نہیں ہوسکتا اور اس وجہ سے اِسے اکیڈمک حیثیت نہیں مل سکتی‘‘۔
دیانتدارانہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ مذہبی عقیدہ ہمارے ذہن میں پہلے سے ہوتاہے اور یہی علم الکلام کی معروف تعریف بھی ہے۔ ہماری خواہش بھی پہلے سے ہوتی ہے کہ ہمارا ہی عقیدہ درست ثابت ہو چنانچہ جب کبھی کوئی ایسی سائنسی دریافت سامنے آتی ہے جو ہمارے عقیدے کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے دلیل کا کام کرسکے تو ہم جھٹ سے اس دریافت کواپنے عقیدے کے حق میں استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں جبکہ ایک سچا محقق کبھی جانبدار نہیں ہوتا۔ چونکہ اپنے پہلے سے قبول شدہ مذہبی عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے سائنسی دریافت کوبطور آلہ استعمال کیا جارہا ہےاس لیے محقق جانبدار ہے اور اس کا کام اکیڈمیا کے نزدیک بے کار ہے۔ یہ بڑی خوبصورت اور معقول بات ہے۔
لیکن عصر ِ حاضر کے طلبۂ فلسفہ و سائنس اور ایتھسٹ برادری کی طرف سے اس معقول ترین اعتراض کی فطرت پر چند منطقی سوال پیدا ہوتے ہیں جو میری دانست میں کسی طور نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔
پہلا سوال،
ایک سائنسدان خود مذہبی شخص ہوسکتاہے۔ بے شمار ہندو، مسلمان، عیسائی، یہودی سائنسدان اب بھی ہیں اور ہمیشہ سے تھے۔ اب تصور کریں کہ ایک سائنسدان کہتاہے ’’میں نے فلاں دریافت کا آئیڈیا اولڈ ٹیسٹمنٹ سے لیا تھا‘‘۔ اس کے ایسا کہنے کے بعد کون سا سائنسی یا منطقی طریقہ ہے جس سے اس کے دعوے کو جھٹلایا جاسکے؟ اس سوال کا جواب سوائے اس کے اور کوئی نہیں دیا جاسکتا کہ اس کی سائنسی دریافت چونکہ ایک سائنسی دریافت ہے چنانچہ لازمی طور پر اس سے پہلے بھی کچھ ایسی سائنس موجود ہوگی جس کے تسلسل میں وہ آگے بڑھ سکا۔ سابقہ سائنس کی موجودگی، اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پاس آئیڈیا فقط بائیبل سے نہیں آیا تھا بلکہ وہ ایک سائنسدان تھا اور اس کا سابقہ مطالعہ ہی موجب بنا کہ وہ ایک نیا آئیڈیا سوچ سکے۔ یہ جواب معقول ہے لیکن اس کے دعوے کو مکمل طور پر رد نہیں کرپاتا۔ بفرض ِ محال اسے اولڈ ٹیسٹمنٹ کی تلاوت کے دوران کسی آیت سے انسائیٹ ملی، ایک جھماکہ سا ہوا اور کوئی نئی بات سمجھ میں آئی۔ اگر وہ تلاوت نہ کررہا ہوتا، مذکورہ آیت اس کے سامنے نہ آئی ہوتی اور وہ بصیرت اسے کبھی نہ ملی ہوتی تو سابقہ سائنس اس کے کس کام کی تھی؟
دوسرا سوال،
اِس بات کا پتہ کیسے چلے گا کہ محقق کی نیّت فی الواقعہ اپنے ہی عقیدے کو درست ثابت کرنا ہے فلہذا اس کا عمل بائیسڈ یعنی کہ جانبدارانہ ہے؟ فرض کریں ایک محقق مذہب کے لحاظ سے ایک اور مذہب کا ہے اور اپنی ریسرچ میں کسی اور مذہب کے عقیدے کو ثابت کرتاہے تو ہم کس بنا پر کہیں گے کہ وہ بائیسڈ ، جانبدار یا بددیانت ہے؟ فرض کریں ایک محقق مسلمان ہے اور گریوی ٹیشنل ویو کی دریافت سے اس کی ریسرچ میں کچھ ایسے حقائق سامنے آرہے ہیں جو ہندوؤں کے آواگون یعنی ’’بار بار جنم‘‘ کے عقیدہ کی تصدیق کی دلیل کے طور پر استعمال ہوسکتے ہیں۔ فرض کریں وہ مسلمان محقق ایک آرٹکل لکھتاہے اور نئی سائنسی دریافت کی مدد سے آواگون کے حق میں بحث کرتاہے۔ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب بھی وہ جانبدار ہے؟
تیسرا سوال،
فرض کریں ایک شخص نے کہا کہ سپیس ٹائم فیبرک جو نظر نہیں آتی اور آسمان اُس پر قائم ہیں، ان کا ذکر قران میں اس طرح ہے، ’’الله وہ ہے جس نے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر بلند کیا جنہیں تم دیکھ رہے ہو‘‘۔ تو ایسا کہنے سے یہ کیسے ثابت ہوجاتاہےکہ سٹیٹمنٹ پیش کرنے والا علمی بددیانتی کا مرتکب ہورہا ہے۔ اس کے برعکس اس نے جس عمل کا مظاہر کیا اسے تحقیق کی زبان میں لٹریچر ریور کہا جاتاہے اور عام طور مذہب پسند محققین اپنے اپنے لٹریچر ریوز میں مذہبی میٹریل کو پیش کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ پہلے اکیڈمک مؤرخ بابائے تاریخ ہیروڈوٹس سے لے کر ہمارے عہد کے مشہور ایتھیسٹ سائنسدان کارل ساگان تک کتنے ہی سائنس دانوں نے اپنی کتابوں کے ابواب کے شروع میں متعدد ایسی کوٹس دی ہوئی ہیں جو مذہبی ہیں یا مذہبی کتابوں سے ہیں۔ ہمارے پاس مشہور کمیونسٹ سبط ِ حسن قدیم دیوی دیوتاؤں کے ناموں اور کہانیوں کو اپنے دور کے فلسفیانہ مناظر سے تطبیق کے لیے پیش کرتاہے۔ ’’موسیٰ سے مارکس تک‘‘ کے ٹائٹل پر پرومیتھوسس کی تصویر اور فلیپ پر لکھی کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ مذہب کا نہ ماننے والا سبطِ حسن بھی اپنے تحقیق میں لٹریچر ریور کے طور پر صحائف یا مائیتھالوجی کا ذکر درج کرنا غیر مناسب نہیں سمجھتا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی تحقیق کے شروع میں جس قدر بھی لٹریچر اس سے ماقبل ہے اس کا درج کیا جانا مستحسن ہے، اس بات سے بالکل بے نیاز ہوکر کہ وہ سٹیٹمنٹ کسی فیتھ یا مذہب سے آرہی ہے۔
چنانچہ یہ ٹرینڈ کہ ’’ہاں ہاں، گریوٹی ویو کے دریافت ہوتے ہیں مذہبی عقائد کی تائید اور تصدیق کا سلسلہ کیوں شروع کردیا گیا؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔ اکیڈمیا کی طرف سے نہیں آرہا۔ بلکہ یہ سوشل سائنسز پر ماڈرن ویسٹرن کیپٹالسٹ افکار کے غلبہ کے بعد ایک فیشن کا حصہ بن کر محققین کو شرمندہ کرنے کے لیے استعمال کیا جانے والا نہایت بھونڈا ہتھیار ہے۔ بھونڈا اس لیے اگر اس اعتراض کو درست مان لیا جائے تو ہمیں سقراط سے لے کر مارکس سے پہلے پہلے تک کی لگ بھگ تمام فلاسفی اور ڈیماکریٹس سے لے کر نیوٹن اورنیوٹن سے لے کر آئن سٹائن تک کی تقریباً تمام تر سائنس بھی اس اعتراض کی رُو سے رد کرنا ہوگی کیونکہ یہ لوگ مذہبی تھے اور اکثر اپنی دریافتوں پر اس لیے بھی خوش ہوا کرتے تھے کہ ان کی دریافتیں اُن کے مذہبی عقائد کی تائید کرتی ہیں۔
تحریر ادریس آزاد


No comments:

Post a Comment