کانٹ
نے عقل کی حدود متعین کیں تو قدیم علوم کی بعض شاخیں ملعون قرار دی جانے لگیں جن
میں علم الکلام بھی ایک ہے۔ علم
الکلام فلسفہ کی اُس شاخ کو کہتے ہیں جس میں عقائد
کو عقلی بنیادیں فراہم کی جاتی ہیں۔ مسلمانوں میں غزالی اور مغربی فلاسفہ میں کانٹ
کے ورُود تک زیادہ تر فلسفی موجودہ تعریف کی رُو سے دراصل متکلمین ہی تھے۔ مکالمات
میں ہم سقراط کو بھی عالم ِ زیریں اور جہنم کے درمیان پائی جانے والی مماثلتیں
بیان کرتاہوا پاتے ہیں۔ افلاطون کو تو الٰہیات کا خالقِ اوّل مانا جاتاہے۔ مولانا
اشرف علی تھانوی افلاطون کو سب سے پہلا ’’الٰہی‘‘ لکھتے ہیں۔
جدید مغربی فلسفیوں کا بابا آدم رینے ڈیکارٹ علم الکلام کا زبردست
ماہر ہے۔ جس کی دلیل ِ وجودی کا توڑ کانٹ کی بے پناہ منطق بھی پوری طرح نہیں
کرپاتی۔ عیسائیوں میں مسلمانوں سے زیادہ متکلمین گزرے ہیں بلکہ تاریخ فلسفہ میں
لکھا ہے کہ Scholasticism ہے ہی عیسائیوں کے (میڈی وَل) فلاسفی کے دور کی ایجاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیونکہ ایک زمانہ تھا جب عیسائی مذہبی پیشوا فلسفی بھی ہوا کرتے تھے۔ سینٹ آگسٹین
کو تو فلسفہ کے طالب علم جانتے ہی ایک فلسفی کی حیثیت سے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ چند دہائیوں سے متکلمین کو ’’کلامی‘‘ کہہ کر
گویا اپنے تئیں گالی دی جاتی اورعلم الکلام کو ایک ناقص علم قرار دیا جاتاہے۔
پاکستان میں بعض پڑھے لکھے اور روشن خیال طلبہ کے نزدیک علم الکلام سب سے بُرا ہے
اور اُن کے اِس خیال کی بنیادیں زیادہ علی عباس جلالپوری کی کتابوں سے آتی ہوئی
محسوس ہوتی ہیں۔ علی عباس جلالپوری کی کتاب ’’اقبال کا علم الکلام‘‘ پڑھ کر منطق
کا طالب علم بخوبی جان جاتاہے کہ ان کے ہاں مغالطہ ’’مسنگ دہ پوائنٹ‘‘ کی بھرمار
ہے۔ وہ اقبال کی نیّت پہلے بتاتے اور افکار کا ذکر بعد میں کرتے ہیں۔ ان کی تحریر
کا انداز کچھ اس طرح ہے،
’’اقبال نے جدید سائنس اور مذہبی مسلمّات
کی تطبیق کی سعی کی ہے۔ اس کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’فلسفیانہ تفکر میں قطعیت کا کوئی
وجود نہیں ہے۔‘ اس سے ان کا مقصد ایک خدشے کی پیش قیاسی کرناہے اور وہ یہ ہے کہ
ممکن ہے کبھی مستقبل میں طبیعات کی دنیا میں کوئی ایسا انکشاف کیا جائے جو ان کے
نظریات کو باطل قرار دے جن پر انہوں نے تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ میں تاویلات و
توجیہات کی عمارت اُٹھائی ہے۔‘‘
علی عباس جلالپوری پہلے صفحے سے آخری صفحے تک اِسی طرح اقبال کے
مقاصد اور ارادوں سے پیشگی باخبر رہتے ہیں۔
خیر! بے شمار منطقی مغالطوں کے باوجود علی عباس جلالپوری کے
استدلال نے مذہب بیزار ذہنوں کو متوجہ کیا اور ہمارے ہاں بھی اُس فیشن کا کچھ
تعارف ہوا جو مغربی طلبہ میں برٹرینڈ رسل کے بعد تیزی سے مقبول ہوا تھا۔ یعنی علم
الکلام کو سربزم کوسنا اور یہ کہنا کہ یہ علم نہیں بددیانتی ہے۔ ان لوگوں کی طرف
سے ایک ہی مقدمہ بار بار پیش کیا جاتاہے،
’’آپ اپنے مذہبی عقائد کو سائنس اور عقل
سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ مطلق کی غیر مطلق کے ساتھ کیا تطبیق؟ سائنس آج کچھ
کہتی ہے کل کچھ اور کہنے لگے گی۔ تو کیا آپ اس وقت اپنے عقائد کی موجودہ تشریحات
سے مُکر جاؤگے؟‘‘
علم الکلام سے اس قدر نفرت کا رجحان اگرچہ محدود پیمانے پر لیکن
ہمارے ہاں بھی فیشن کی حیثیت اختیار کرچکاہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ فلسفہ کے
دامن میں جس قدر خزانہ موجود ہے یہ علم الکلام کا دیا صدقہ ہے۔بلکہ ایک لحاظ سے
دیکھاجائے تو فلسفہ کی ابتدأ ہی علم الکلام سے ہوتی ہے کیونکہ پہلا فلسفی تھیلس
جس یونیفائینگ تھیوری کو تلاش کررہا تھا وہ فی الاصل خدا کی ہی تلاش تھی۔ بظاہر
محسوس ہوتاہے کہ عہد ِ حاضر کی مادیت خدا اور اس کے کاموں سے بے پرواہ ہے لیکن
بغور دیکھنے پر معلوم ہوتاہے کہ سائنس بلاارادہ محض قدیم یونانی مائیتھالوجی کی
تصدیق پر لگی ہے۔ میری دانست میں سائنس ہمیشہ خود سب سے بڑی متکلم رہی ہے۔ اگر دیگ
خود ہی شیرینی سے لبریز ہو تو چمچے کاہے شرما سکتے ہیں؟
پروفیسر وائیٹ ہیڈ کا ایک قول اقبال نے نقل کیا ہے،
’’مذہب کا ہر عہد عقلیت کا عہد تھا‘‘۔
حقیقت یہی ہے کہ مذہب عامۃ الناس کا فلسفہ ہے اور فلسفہ کچھ خاص
لوگوں کا مذہب۔ مذہب کے وجود میں دل سے پہلے عقل کو راضی کرنے کی صلاحیت موجود ہے
اور یہ سارا کام علم الکلام کی ذمہ داری ہے۔
علم الکلام فلسفہ کی ایک اہم ترین شاخ ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں میں
سرسید شبلی، ابوالکلام اور اقبال نے اپنے اپنے انداز میں عقائد کو ہر عاقل کے لیے
سہل بنا دیا۔ اقبال کی ’’دی ری کنسٹرکشن‘‘ ہمارے خطہ میں کی گئی کامیاب ترین کوشش
ہے جس نے مسلمانوں کو ندامت سے نجات دلائی اور ان کے عقائد کو مسیحیت سے بڑھ کر
استدلال فراہم کیا۔
ازراہ ِ تفنن کہا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ اہل ِ سائنس کو فقط ایک
بات کا غصہ ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم جب مذہبی مقدمات سے مدد نہیں لیتے تو مذہب
ہمارے مقدمات سے مدد کیوں لیتا ہے؟ گزشتہ دنوں ہِگز پارٹکل کے حوالے سے ایک
سائنسدان نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ،
’’لوگ جب ہِگز پارٹیکلز کو گاڈ(God) پارٹیکل کہتے
ہیں تو مجھے شدید غصہ آتاہے۔ اب اسی غصے کی وجہ سے میں نے انہیں ڈاگ(Dog) پارٹیکل کہنا
شروع کردیا ہے۔
ہمارے معترضین کو دیکھنا چاہیے کہ گریوی ٹیشنل ویو کی دریافت پر
صرف مسلمان ہی خوش نہیں ہوئے تقریباً ہرمذہب کے ایسے لوگ خوش ہوئے ہیں جو متکلمین
کی طرز پر سوچنے کے عادی ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ مذہب نے ایک وقت میں سائنس کی نہ صرف رہنمائی کی ہے
بلکہ ایک زمانہ ہوا کرتا تھا جب سائنسی ایجادات، تحقیقات اور ان کی ترویج و ترقی
کی تمام تر ذمہ داری مذہب ہی کے شانوں پر تھی۔ کتنے ہی بڑے بڑے پادری اور پر ِ
یسٹ، مذہبی سکالرز اور پیشوأ خود سائنسدان گزرے ہیں۔ یہ یہودیت ہو یا عیسائیت،
اسلام ہو یا ہندومت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مذہب اور مذہبی عقائد نے صدیوں تک سائنس کی خدمت کی
ہے۔ اور عین وہی زمانے ہیں جب ہر فلسفہ میں ’’علم الکلام‘‘ جیسی طاقتور شاخ داخل
ہورہی ہے۔
میرا ذاتی مؤقف یہ ہے کہ اگر کوئی نئی سائنسی دریافت سامنے آتی ہے
اور مذہبی ذہن کے بعض محققین اُسے اپنے عقائد کی تصدیق یا تائید کے لیے استعمال
کرتے ہیں تو منطقی طور پر کسی طرح بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ یہ عمل بددیانتی پر
مبنی ہے۔ بالفاظ ِ دگر اگر بدیادنتی پر مبنی ہو بھی تو ایسی کوئی سائنس یا منطق سرے
سے موجود نہیں جو اس بات کی تصدیق کرسکے کہ متکلم کا عمل فی الواقعہ بدیانتی پر
مبنی تھا اور آزادانہ تحقیق کے تمام تقاضے پورے نہ کرتا تھا۔
ادریس آزاد
No comments:
Post a Comment